Saturday 24 August 2013



چلو ہم پھر صف آرا ہوں
صف آرا ہوں
کہ دشمن چار سُو آئے
کہ قاتل رُوبُرو آئے
کہ اُن کے کاسۂ خالی میں
کچھ اپنا لہو آئے
کہ بُجھ جائے ہر اِک مشعل
تو ظلمت کُوبکُو آئے

کہ اہلِ صدق و ایماں ، بے سہارا ہوں
چلو ہم پھر صف آرا ہوں

صف آرا ہوں کہ پہلے بھی
ستم ایجاد آئے تھے
نشاںِ ظلم اُٹھائے تھے
لُہو سے تربتر خنجر
قباؤں میں چُھپائے تھے
ہوس کی تُند آندھی نے
دیے کیا کیا بُجھائے تھے
مثالِ سنگِ خارا ہوں
چلو ہم پھر صف آرا ہوں 
صف آرا ہوں کہ پھر آئیں
تو قاتل سرنگوں جائیں
پشیمان و زبوں جائیں
گنوا کر اپنے جسم و جاں
بہا کر اپنا خوں جائیں
عدو سفاک ارادوں سے
اگر آئیں تو یوں جائیں

کہ شرمندہ دوبارہ ہوں
چلو ہم پھر صف آرا ہوں

No comments:

Post a Comment