Wednesday 26 September 2012


میں تُجھ کو اب بُھلانا چاہتا ہوں
زندگی کو پھر آزمانا چاہتا ہوں
بہت بھیگ چُکا غم کی بارش میں
اب کوئی بس میں ٹھکانا چاہتا ہوں
بدنامیاں ہوئیں بہت میرا مقدر
تیرا نام دامن سے مٹانا چاہتا ہوں
تیری وارفتگی میں بُھول چُکا تھا جنکو
میں اُن رشتوں کو آزمانا چاہتا ہوں
جسکی راہ میں نہ آئے کوئی بھی سَراب
اُس منزل کو میں جانا چاہتا ہوں
سائے کے پیچھے دوڑتے اُکھڑ چُکیں سانسیں
ساگر دن سکُوں کے باقی بیتانا چاہتا ہوں...!

No comments:

Post a Comment