Wednesday 26 September 2012


مری موت خواب میں دیکھ کر ہوئے خوب اپنی نظر سے خُوش
اُنہیں عید کی سی خوشی ہوئی، رہے شام تک وہ سحر سے خُوش

اُنہیں بزم غیر میں تھا گماں کہ یہ سادہ لوح بہل گیا
مجھے خوف عزت و آبرو کہ رہا فقط اِسی ڈر سے خُوش

وہی دوست ہیں وہی آشنا، وہی آسماں ہے وہی زمیں
عجب اتفاقِ زمانہ ہے کہ بشر نہیں ہے بشر سے خُوش

مجھے چشم تر سے نہیں گِلہ، مرے دل کا داغ مٹا دیا
کہ لیا ہے نورِ بصر اگر تو کیا ہے لختِ جگر سے خُوش

یہ خوشا نصیب کہ یار نے مری موت غیر سے سُن تو لی
یہ اگرچہ جھوٹ اُڑائی تھی ، وہ ہوا تو ایسی خبر سے خُوش

وہ گلی ہو اور نطارہ ہو ، یہ نظر ہو اور اشارہ ہو
کبھی شاد جلوہء بام سے، کبھی سیر روزنِ در سے خُوش

دل و دیں لیا جو رقیب سے تو مبارک آپ کو یہ خُوشی
مجھے فائدہ، مجھے نفع کیا کہ جو ہوں پرائے ضرر سے خُوش

No comments:

Post a Comment