Monday 3 December 2012



اب میرے پاس تُم آئی ہو ، تو کیا آئی ہو

میں نے مانا کہ تم اِک پیکرِ رعنائی ہوچمنِ دہر میں روحِ چمن آرائی ہوطلعتِ مہر ہو ، فردوس کی برنائی ہوبِنتِ مہتاب ہو ، گردوں سے اُتر آئی ہو

مجھ سے مِلنے میں اب اندیشہءِ رُسوائی ہےمیں نے خود اپنے کیے کی یہ سزا پائی ہے

خاک میں، آہ، ملائ ہے جوانی میں نےشعلہ زاروں میں جلائی ہے جوانی میں نےشہرِ خوباں میں گنوائی ہے جوانی میں نےخواب گاہوں میں گنوائی ہے جوانی میں نے

حُسن نے جب بھی عنائت کی نظر ڈالی ہےمیرے پیمانِ محبت نے سِپر ڈالی ہے

اُن دِنوں مُجھ پے قیامت کا جُنوں طاری تھاسَر پے سرشاری و عِشرت کا جُنوں طاری تھامہ پاروں سے محبت کا جُنوں طاری تھاشہر یاروں سے رقابت کا جُنوں طاری تھا

بِسترِ مخمل و سنجاب تھی دُنیا میریایک رنگین و حسیں خواب تھی دُنیا میری

کیا سُنو گی میری مجروح جوانی کی پُکارمیری فریادِ جِگر دوز میرا نالاءِ زارشِدتِ کرب میں ڈوبی ہوئی میری گُفتارمیں کہ خود اپنے مذاقِ طرب آگیں کا شِکار

وہ گُدازِ دلِ مرحوم کہاں سے لائوں؟اب میں وہ جذبہءِ معصوم کہاں سے لائوں؟

اب میرے پاس تُم آئی ہو، تو کیا آئی ہو

No comments:

Post a Comment