Tuesday 4 December 2012



تم سے جو میری جانِ جاں تھیں فارہہ
کون تھیں تم اور کہاں تھی فارہہ
ہوں میں اب اور اک جہانِ نا شناس
تم ہی بس میرا خیال تھیں فارہہ
کیا ہوا وہ رودِ خوابِ جاں کہ تم
جس میں دست و پا زناں تھیں فارہہ
میں غریقِ رودِ زہرِ ناب ہوں
تم جو تھیں نوشیں زباں تھیں فارہہ
اور کہہ سکتا ہوں کیا میں یعنی میں
تم زمین و آسماں تھیں فارہہ
اب تو میں ہوں خزاں اندر خزاں
تم بہارِ بے خزاں تھیں فارہہ
اب میں ہوں خانہ بدوش اور تم مرا
اک مکانِ جاوداں تھیں فارہہ
میں تھا میرِ داستاں یعنی کہ تم
داستانِ داستاں تھیں فارہہ
کیا بھلا میرا وجود اور کیا عدم
تم *نہیں* تھیں اور *ہاں* تھیں فارہہ
ہاں میں شاید تھا بہت نا مہرباں
تم بَلا کی مہرباں تھیں فارہہ
تھی وہ اپنی درمیانی بھی عجیب
یعنی تم نا درمیاں تھیں فارہہ
کیوں نہ تھوکا جائے اب خونِ جگر
یعنی تم میرا زیاں تھیں فارہہ
ہائے وہ بادِ برینِ سبز کوک
پر تم اک رودِ دُخاں تھیں فارہہ
کیسی خوش بینی خوش اُمیدی کہاں
تم تو حشر بے اماں تھیں فارہہ
کچھ نہیں تھیں تم نہیں تھیں کچھ بھی تم
پر مرا ہندوستاں تھیں فارہہ
سب کنیزیں تھیں تمہاری جانِ من
تم مری نورِ جہاں تھیں فارہہ
جو بدل ٹھہریں تمہارا وہ سبھی
کتنی گھٹیا لڑکیاں تھیں فارہہ
میں جو ہوں اب میں ہوں بے نام و نشاں
تم مرا نام و نشاں تھیں فارہہ
تم نوائے جاودانِ جاں ہو جاں
تم نوائے جاوداں تھیں فارہہ
ایک دل تھا جو کہ تھا اور ایک جاں
اور تم ان کے درمیاں تھیں فارہہ
میں تمہیں میں ٹھوکریں کھاتا رہا
کیوں تم اتنی مہرباں تھیں فارہہ
اک جہانِ بے جہانِ خواب تھا
اور تم اس کا آسماں تھیں فارہہ
میں نے تم کو اپنے دل کا گھر دیا
تم جو تھیں بے خانماں تھیں فارہہ
شکوہ ہا شوریدگی ہا شور ہا
تم بہت کمتر گماں تھیں فارہہ

O

اب مجھے آزاد کر دو چھوڑ دو
جان و دل کے سارے رشتے توڑ دو
جب کوئی منزل نہیں میری تو پھر
رُخ کسی جانب بھی میرا موڑ دو

O

کچھ نہیں تھا کیا حقیقت کا خیال
صرف افسانے تھے ممکن اور محال
اک *عبث* میں خونِ دل تھوکا گیا
کوئی بھی حالت نہیں تھی اور حال

O

اک گمانِ بے گماں ہے زندگی
داستاں کی داستاں ہے زندگی
دَم بہ دَم ہے اک فراقِ جاوداں
اک جبیں بے آستاں ہے زندگی
کہکشاں بر کہکشاں ہے اک گریز
بودِ بے سود و زیاں ہے زندگی
ہے مری تیرہ نگاہی اک تلاش
تم کہاں ہو اور کہاں ہے زندگی

O

دل تھا درہم اور برہم رایگاں
تھے تمہاری زُلف کے خم رایگاں
اپنی ساری آرزوئیں تھیں فریب
اپنے خوابوں کا تھا عالم رایگاں
جونؔ شاید کچھ نہیں کچھ بھی نہیں
ہے دوام اک وہم اور دم رایگاں
زندگی بس رایگانی ہی تو ہے
میں بہت خوش ہوں کہ تھے ہم رایگاں
ہم رَسا اور نارسا کچھ بھی نہ تھے
یعنی جونؔ و فارہہ کچھ بھی نہ تھے

No comments:

Post a Comment