Saturday 15 December 2012




میں تیرے شہر سے گزرا تو کچھہ عجب سا لگا
ہر ایک موڑ پہ ناکام حسرتوں ......کا ہجوم
ہر ایک رہ میں مقروض خواہشوں کی قطار
ہر اک قدم پہ شکستہ ندامتوں کے .... مزار
ہر ایک آنکھہ میں مرگ تعلقات کا سوگ

ہر ایک روش پہ رواں جستجوے رزق میں لوگ
تمام لوگ وہی لوگ تھے کہ جن سے کبھی
نظر چرا کے گزرتا تھا میں ہوا کی طرح
تمام ساۓ میری آنکھہ میں بکھرتے تھے
کسی قریب کی بستی کے آشنا کی طرح
میں تیرے شہر سے گزرا تو کچھہ عجب سا لگا
کہ جیسے شہر وہی ہے ،وہی نہی ہے مگر
کوئی گلی،کوئی منظر،کسی روش کا مزاج
جبیں خاک میں پیوست ہیں فراق کے داغ
فضاے زرد کے ساۓ میں احتیاط کے ساتھہ
اجاڑ بام پہ جلتا ہوا...............اداس چراغ
ہوا سے پوچھہ رہا تھا .....اک اجنبی کی طرح
میرے سفر کا سبب ،تیرے ہمسفر کا سراغ
ہر اک سوال مجھے کتنا بے سبب سا لگا
میں تیرے شہر سے گزرا تو کچھہ عجب سا لگا

No comments:

Post a Comment