Monday 21 January 2013


خود کشی سے پہلے

اُف یہ بے درد سیاہی یہ ہوا کے جھونکے
کس کو معلوم ہے اس شب کی سحر ہو کہ نہ ہو
اک نظر تیرے دریچے کی طرف دیکھ تو لوں
ڈوبتی آنکھوں میں پھر تابِ نظر ہو کہ نہ ہو

ابھی روشن ہیں ترے گرم شبستانوں کے دیے
نیلگوں پردوں سے چھنتی ہیں شعائیں اب تک
اجنبی بانہوں کے حلقے میں لچکتی ہوں گی
تیرے مہکے ہوئے بالوں کی روائیں اب تک

سرد ہوتی ہوئی بتی کے دھوئیں کے ہمراہ
ہاتھ پھیلائے بڑھے آتے ہیں بوجھل سائے
کون پونچھے مری آنکھوں کے سلگتے آنسو
کون الجھے ہوئے بالوں کی گرہ سلجھائے

آہ یہ غارِ ہلاکت، یہ دیے کا مجلس
عمر اپنی انہی تاریک مکانوں میں کٹی
زندگی فطرت بے حسن کی پرانی تقصیر
اک حقیقت تھی مگر چند فسانوں میں کٹی

کتنی آسائشیں ہنستی رہیں ایوانوں میں
کتنے در میری جوانی پہ سدا بند رہے
کتنے ہاتھوں نے بنا اطلس و کمخواب مگر
میرے ملبوس کی تقدیر میں پیوند رہے

ظلم سہتے ہوئے انسانوں کے اس مقتل میں
کوئی فردا کے تصور سے کہاں تک بہلے
عمر بھر رینگتے رہنے کی سزا ہے جینا
ایک دو دن کی اذیت ہو تو کوئی سہہ لے

وہی ظلمت ہے فضاوں پہ ابھی تک طاری
جانے کب ختم ہو انساں کے لہو کی تقطیر
جانے کب نکھرے سیہ پوش فضا کا جوبن
جانے کب جاگے ستم خوردہ بشر کی تقدیر

ابھی روشن ہیں ترے گرم شبستاں کے دیے
آج میں موت کے غاروں میں اتر جاوں گا
اور دم توڑتی بتی کے دھوئیں کے ہمراہ
سرحدِ مرگِ مسلسل سے گزر جاوں گا

(ساحر)

No comments:

Post a Comment