Monday 21 January 2013


جو اُتر کے زِینۂ شام سے تیری چشمِ خوش میں سماگئے
وہی جلتے بُجھتے چراغ سے میرے بام و در کو سجا گئے

یہ عجیب کھیل ہے پیار کا، میں نے آپ دیکھا یہ مُعجِزہ
کہ جو لفظ میرے گُماں میں تھے وہ تیری زبان پہ آگئے

وہ جو گیت تم نے سُنا نہیں، میری عُمر بھر کا رِیاض تھا
میرے درد کی تھی وہ داستاں جسے تُم ہنسی میں اُڑا گئے

وہ چراغِ جاں کبھی جس کی لَو نہ کسی ہوا سے نِگوں ہوئی
تیری بےوفائی کے وسوسے اُسے چُپکے چُپکے بُجھا گئے

وہ تھا چاند شامِ وِصال تھا، کہ تھا رُوپ تیرے جمال کا
میری رُوح سے میری آنکھ تک کسی روشنی میں نہا گئے

یہ جو بندگانِ نِیاز ہیں، یہ تمام ہیں وہی لشکری
جنہیں زِندگی نے اماں نہ دی تو تیرے حُضُور میں آگئے

تیری بےرُخی کے دِیار میں، مَیں ہوا کے ساتھ ہَوا ہُوا
تیرے آئینے کی تلاش میں، میرے خواب چہرہ گنوا گئے

تیرے وسوسوں کے فِشار میں تیرا شہرِ رنگ اُجڑ گیا
میری خواہشوں کے غُبار میں میرے ماہ و سالِ وفا گئے

وہ عجیب پھُول سے لفظ تھے تیرے ہونٹ جِن سے مہک اُٹھے
میرے دشتِ خواب میں دُور تک کوئی باغ جیسے لگا گئے

میری عمر سے نہ سِمٹ سکے میرے دِل میں اتنے سوال تھے
تیرے پاس جتنے جواب تھے تیری ایک نِگاہ میں آگئے...!!

No comments:

Post a Comment