Sunday 27 January 2013



کچھ ایسےخوش بھی نہیں آشیانہ چھوڑ کے ہم
ٹھکانے لگ نہیں پائے ٹھکانہ چھوڑ کے ہم

کمانِ شوق نے پھینکا تھا دور اور کہیں
کہاں پہ آن گرے ہیں نشانہ چھوڑ کے ہم

ابھی خبر نہیں چلنا ہے نو کہ یا سو دن
نئے کے ساتھ چلے ہیں پرانا چھوڑ کے ہم

بھلا بتاؤ کہیں اور جائیں گے کیسے
تمہارا طرزِ رخِ دلبرانہ چھوڑ کے ہم

اسے منا نہیں پائے تو یہ بھی خوب ہوا
اسی سے روٹھ گئے ہیں منانا چھوڑ کے ہم

کوئی خبر نہیں کس انتہا کو لے جائے
چنیں جو رستہ کوئی درمیانہ چھوڑ کے ہم

پڑھیں گے لوگ یقناً ہمارے بعد ہمیں
گزرتے جاتے ہیں اپنا فسانہ چھوڑ کے ہم

ہمیں حواس پہ قابو نہیں رہا ناصر
اسے بُلا بھی رہے ہیں بلانا چھوڑ کے ہم

ناصر علی 
(از کتب الشباہت)

No comments:

Post a Comment