Monday 21 January 2013


عورت نے جنم دیا مردوں کو، مردوں ے اُسے بازار دیا

جب جی چاہا مسلا کچلا، جب جی چاہا دھتکار دیا

تُلتی ہے کہیں دیناروں میں، بِکتی ہے کہیں بازاروں میں
ننگی نچوائی جاتی ہے عیاشوں کے درباروں میں
یہ وہ بے عزت چیز ہے جو بِٹ جاتی ہے عزت داروں میں
عورت نے جنم دیا مردوں کو، مردوں ے اُسے بازار دیا

مردوں کے لیے ہر ظلم روا، عورت کے لیے رونا بھی خطا
مردوں کے لیے ہر عیش کا حق، عورت کے لیے جینا بھی سزا
مردوں کے لیے لاکھوں سیجیں، عورت کے لیے بس اِک چِتا
عورت نے جنم دیا مردوں کو، مردوں ے اُسے بازار دیا

جن سینوں نے ان کو دودھ دیا ان سینوں کا بیوپار کیا
جس کوکھ میں ان کا جسم ڈھلا اس کوکھ کا کاروبار کیا
جس تن سے اُگے کونپل بن کر اس تن کو ذلیل و خوار کیا
عورت نے جنم دیا مردوں کو، مردوں ے اُسے بازار دیا

سنسار کی ہر اک بے شرمی غربت کی گود میں پلتی ہے
چکلوں ہی میں آ کر رُکتی ہے، فاقوں سے جو راہ نکلتی ہے
مردوں کی ہوس ہے جو اکثر عورت کے پاپ میں ڈھلتی ہے
عورت نے جنم دیا مردوں کو، مردوں ے اُسے بازار دیا

عورت سنسار کی قسمت ہے پھر بھی تقدیر کی ہیٹی ہے
اوتار پیمبر جنتی ہے پھر بھی شیطان کی بیٹی ہے
یہ وہ بد قسمت ماں ہے جو بیٹوں کی سیج پہ لیٹی ہے
عورت نے جنم دیا مردوں کو، مردوں ے اُسے بازار دیا

(ساحر)

No comments:

Post a Comment