Monday 21 January 2013


دشت تنہائی میں اے جان جہاں لرزاں ہیں

تیری آواز کے سائے، تیرے ہونٹوں کے سراب
دشت تنہائی میں دوری کے خس و خاک تلے
کھل رہے ہیں تیرے پہلو کے سمن اور گلاب

اٹھ رہی ہے کہیں قربت سے تیری سانس کی آنچ
اپنی خوشبو میں سلگتی ہوئی
مدھم مدھم ۔۔
دور افق پار چمکتی ہوئی
قطرہ قطرہ۔۔
گر رہی رہے تیری دلدار نظر کی شبنم

اس قدر پیار سے اے جان جہاں رکھا ہے
دل کے رخسار پے اس وقت تیری یاد نے ہاتھ
یوں گماں ہوتا ہے گرچہ ہے ابھی صبح فراق
ڈھل گیا ہجر کا دن آ بھی گئی وصل کی رات

(فیض)

No comments:

Post a Comment