Monday 21 January 2013


جلتے جلتے بجھ گئی اک موم بتی رات کو
مر گئی فاقہ زدہ معصوم بچی رات کو

آندھیوں سے کیا بچاتی پھول کو کانٹوں کی باڑ
صحن میں بکھری ہوئی تھی پتّی پتّی رات کو

کتنا بوسیدہ دریدہ پیرہن ہے زیبِ تن
وہ جو چرخہ کاتتی رہتی ہے لڑکی رات کو

صحن میں اک شور سا، ہر آنکھ ہے حیرت زدہ
چوڑیاں سب توڑ دیں دلہن نے پہلی رات کو

جب چلی ٹھنڈی ہوا بچّہ ٹھٹھر کر رہ گیا
ماں نے اپنے لال کی تختی جلا دی رات کو

وقت تو ہر ایک در پر دستکیں دیتا رہا
ایک ساعت کے لیے جاگی نہ بستی رات کو

مرغزارِ شاعری میں گم رہا سبطِ علیؔ
سو گئی رہ دیکھتے بیمار بیوی رات کو

(سبطِ علی صبا)

No comments:

Post a Comment