Monday 21 January 2013


تم ایسا کرنا کہ کوئی جگنو کوئی ستارہ سنبھال رکھنا
مرے اندھیروں کی فکر چھوڑو تم اپنے گھر کا خیا ل رکھنا

اُجاڑ موسم میں ریت دھرتی پہ فصل بوئی تھی چاندنی کی
اب اُس میں اُگنے لگے اندھیرے تو کیسا جی میں ملال رکھنا

دیارِ الفت میں اجنبی کو سفر ہے درپیش ظلمتوں کا
کہیں وہ راہوں میں کھو نہ جائے ذرا دریچہ اُجال رکھنا

وہ رسم و رہ ہی نہیں تو پھریہ اثاثے کس کام کے تمھارے
اُدھر سے گزرا کبھی تو لے لوں گا تم مرے خط نکال رکھنا

بچھڑنے والے نے وقتِ رخصت کچھ اس نظر سے پلٹ کے دیکھا
کہ جیسے وہ بھی یہ کہہ رہا ہو، تم اپنے گھر کا خیال رکھنا

یہ دھوپ چھاؤں کاکھیل ہے یاں خزاں بہاروں کی گھات میں ہے
نصیبِ صبح عروج ہو تو نظرمیں شامِ زوال رکھنا

کسے خبر ہے کہ کب یہ موسم اُڑا کے رکھدے گا خاک آذر
تم احتیاطاً زمیں کے سر پر فلک کی چادر ہی ڈال رکھنا

اعزاز احمد آذر

No comments:

Post a Comment