Friday 10 May 2013

وہ جو اک عمر سے


وہ جو اک عمر سے مصروف عبادات میں تھے 
آنکھ کھولی تو ابھی عرصہء ظلمات میں تھے

صرف آفات نہ تھیں ذاتِ الٰہی کا ثبوت 
پھول بھی دشت میں تھے، حشر بھی جذبات میں تھے

نہ یہ تقدیر کا لکھا تھا نہ منشائے خدا
حادثے مجھ پہ جو گزرے مرے حالات میں تھے 

میں نے کی حدِ نظر پار تو یہ راز کھلا
آسماں تھے تو فقط میرے خیالات میں تھے

میرے دل پر تو گریں آبلے بن کر بوندیں 
کون سی یاد کے صحرا تھے جو برسات میں تھے

اس سبب سے بھی تو میں قابلِ نفرت ٹھہرا
جتنے جوہر تھے محبت کے مری ذات میں تھے

صرف شیطاں ہی نہ تھا منکرِ تکریمِ ندیم
عرش پر جتنے فرشتے تھے مری گھات میں تھے

احمد ندیم قاسمی

No comments:

Post a Comment