سانس لینا بھی سزا لگتا ہےاب تو مرنا بھی روا لگتا ہےموسمِ گل میں سرِ شاخِ گلابشعلہ بھڑکے تو بجا لگتا ہےمسکراتا ہے جو اس عالم میںبخدا مجھے خدا لگتا ہےاتنا مانوس ہوں سناٹے سےکوئی بولے تو برا لگتا ہےان سے مل کر بھی نہ کافور ہوادرد سے سب سے جدا لگتا ہےنطق کا ساتھ نہیں دیتا ذہنشکر کرتا ہوں گِلہ لگتا ہےاس قدر تند ہے رفتارِ حیاتوقت بھی رشتہ بپا لگتا ہے
No comments:
Post a Comment