ہم اپنی قوّتِ تخلیق کو اکسانے آئے ہیںضمیرِ ارتقاء میں بجلیاں دوڑانے آئے ہیںجو گردش میں رہیں گے اور کبھی خالی نہیں ہوں گےہم ایسے جام بزمِ دہر میں چھلکانے آئے ہیںاجل کی رہزنی سے ہر طرف طاری ہیں سنّاٹےسرودِ زندگی کو نیند سے چونکانے آئے ہیںہوائيں تیز ہیں جل جل کے بجھتے ہیں چراغ اپنےارادے تند ہیں ہم شمعِ نو بھڑکانے آئے ہیںوہ دیوانے جو ہمّت ہار کے بیٹھے تھے صدیوں سےاب اپنی منجمد تقدیر سے ٹکرانے آئے ہیںعروسِ زندگانی کا سوئمبر رچنے والا ہےنئے ارجن مشیت کی کماں لچکانے آئے ہیں
No comments:
Post a Comment