Wednesday 8 May 2013

مطلق نہیں ادھر ہے اس دل ربا کی خواہش


مطلق نہیں ادھر ہے اس دل ربا کی خواہش
کیا جانیے کہ کیا ہے یارو خدا کی خواہش

دیکھیں تو تیغ اس کی اب کس کے سر چڑھے ہے
رکھتے ہیں یار جی میں اُس کی جفا کی خواہش

لعلِ خموش اپنے دیکھو ہو آرسی میں
پھر پوچھتے ہو ہنس کر مجھ بے نوا کی خواہش

اقلیمِ حسن سے ہم دل پھیر لے چلے ہیں
کیا کریے یاں نہیں ہے جنسِ وفا کی خواہش

خونِ جگر ہی کھانا آغازِ عشق میں ہے
رہتی ہے اس مرض میں پھر کب غذا کی خواہش

وہ شوخ دشمنِ جاں، اے دل تُو اس کا خواہاں
کرتا ہے کوئی ظالم ایسی بلا کی خواہش

میرے بھی حق میں کر ٹک ہاتھوں کو میر اونچا
رکھتا ہے اہلِ دل سے ہر یک دعا کی خواہش

(میر تقی میر)

No comments:

Post a Comment