Friday 10 May 2013

ہم سیاست سے محبت کا چلن مانگتے ہیں



ہم سیاست سے محبت کا چلن مانگتے ہیں
شب صحرا سے مگر صبح چمن مانگتے ہیں

وہ جو ابھرا بھی تو بادل میں لپٹ کر ابھرا
اسی بچھڑے ہوئے سورج کی کرن مانگتے ہیں

کچھ نہیں مانگتے ہم لوگ بجز اذن کلام
ہم تو انسان کا بے ساختہ پن مانگتے ہیں

ایسے غنچے بھی تو گل چیں کی قبا میں ہیں اسیر
بات کرنے کو جو اپنا ہی دہن مانگتے ہیں

فقط اس جرم میں کہلائے گنہ گار ، کہ ہم
بہر ناموس وطن ، جامہ تن مانگتے ہیں

ہم کو مطلوب ہے تکریم قد و گیسو کی
 
آپ کہتے ہیں کہ ہم دار و رسن مانگتے ہیں

لمحہ بھر کو تو لبھا جاتے ہین نعرے ، لیکن
ہم تو اے وطن ، درد وطن مانگتے ہیں

No comments:

Post a Comment