Saturday 18 May 2013

جگنو، گُہر، چراغ،




جگنو، گُہر، چراغ، اجالے تو دے گیا
وہ خود کو ڈھونڈنے کے حوالے تو دے گیا

اب اس سے بڑھ کے کیا ہو وراثت فقیر کی
بچوں کو اپنی بھیک کے پیالے تو دے گیا

اب میری سوچ سائے کی صورت ہے اُس کے گرد
میں بجھ کے اپنے چاند کو ہالے تو دے گیا

شاید کہ فصلِ سنگ زنی کچھ قریب ہے
وہ کھیلنے کو برف کے گالے تو دے گیا

اہلِ طلب پہ اُس کے لیے فرض ہے دُعا
خیرات میں وہ چند نوالے تو دے گیا

محسن اُسے قبا کی ضرورت نہ تھی مگر
دُنیا کو روز و شب کے دوشالے تو دے گیا

No comments:

Post a Comment