Saturday 18 May 2013

ملیں ہم کبھی تو ایسے



ملیں ہم کبھی تو ایسے کہ حجاب بھول جائے
میں سوال بھول جاؤں، تُو جواب بھول جائے

کبھی تُو جو پڑھنے بیٹھے، مجھے حرف حرف دیکھے
تیری آنکھیں بھیگ جائیں، تُو کتاب بھول جائے

تیری سوچ پر ہو حاوی میری یاد اس طرح سے
کہ تُو اپنی زندگی کا یہ نصاب بھول جائے

تُو کسی خیال میں ہو اور اُسی خیال میں ہی
کبھی میرے راستے میں تُو گلاب بھول جائے

تُو جو دیکھے میری جانب تو بچُوں میں اک گناہ سے
تجھے دیکھ لوں میں اتنا کہ شراب بھول جائے

مجھے غم تو دے رہا ہے، اور اُس پہ چاہتا ہے
میں حساب رکھ نہ پاؤں، وہ حساب بھول جائے

No comments:

Post a Comment