دلیلِ صبح طَرب ہی سہی یہ سناٹامگر پہاڑ سی یہ رات کٹ چکے تو کہوںپسِ نقاب ہی پنہاں سہی عروسِ سحرمگر یہ پر دہء ظلمات ہٹ چکے تو کہوںیہ رات بھی تو حقیقت ہے تلخ و تند و درشتاسے سحر کا تصور مٹا نہیں سکتامجھے تو نیند نہیں آئيگی کہ میرا شعورشبِ سیاہ سے آنکھیں چرا نہیں سکتااگر نشانِ سفر تک کہیں نہیں، نہ سہیمیں رینگ رینگ کے یہ شب نہیں گزاروں گاشکست سے مرا اخلاق اجنبی ہے ندیمسحر ملے نہ ملے رات سے نہ ہاروں
No comments:
Post a Comment