Friday 10 May 2013

دلیلِ صبح طَرب ہی سہی یہ سناٹا


دلیلِ صبح طَرب ہی سہی یہ سناٹا
مگر پہاڑ سی یہ رات کٹ چکے تو کہوں
پسِ نقاب ہی پنہاں سہی عروسِ سحر
مگر یہ پر دہء ظلمات ہٹ چکے تو کہوں

یہ رات بھی تو حقیقت ہے تلخ و تند و درشت
اسے سحر کا تصور مٹا نہیں سکتا
مجھے تو نیند نہیں آ‏ئيگی کہ میرا شعور
شبِ سیاہ سے آنکھیں چرا نہیں سکتا 

اگر نشانِ سفر تک کہیں نہیں، نہ سہی
میں رینگ رینگ کے یہ شب نہیں گزاروں گا
شکست سے مرا اخلاق اجنبی ہے ندیم
سحر ملے نہ ملے رات سے نہ ہاروں

No comments:

Post a Comment