Wednesday 8 May 2013

اُڑ کر کبُوتر ایک سرِ بام آ گیا


اُڑ کر کبُوتر ایک سرِ بام آ گیا
مجھ کو یہی لگا ترا پیغام آ گیا

میں گِن رہا تھا آج پُرانی محبتیں
ہونٹوں پہ آج پھر سے ترا نام آ گیا

رکھا تھا ہاتھ نبض پہ چُھونے کے واسطے
اُس نے یہ کہہ دیا ، مجھے آرام آ گیا

احساں کا ڈھنگ ڈھونڈتے پھرتے رہے عزیز
جو یار تھا عدیم، مرے کام آ گیا

وہ اِک نظر عدیم جو بیمار کر گئی
اُس اِک نظر ہی سے مجھے آرام آ گیا

نذرِ مصحفی

عدیم ہاشمی

No comments:

Post a Comment