اُڑ کر کبُوتر ایک سرِ بام آ گیا
مجھ کو یہی لگا ترا پیغام آ گیامیں گِن رہا تھا آج پُرانی محبتیں
ہونٹوں پہ آج پھر سے ترا نام آ گیارکھا تھا ہاتھ نبض پہ چُھونے کے واسطے
اُس نے یہ کہہ دیا ، مجھے آرام آ گیااحساں کا ڈھنگ ڈھونڈتے پھرتے رہے عزیز
جو یار تھا عدیم، مرے کام آ گیاوہ اِک نظر عدیم جو بیمار کر گئی
اُس اِک نظر ہی سے مجھے آرام آ گیانذرِ مصحفیعدیم ہاشمی
No comments:
Post a Comment