Friday 10 May 2013

ہم اندھیروں سے بچ کر چلتے ہیں



ہم اندھیروں سے بچ کر چلتے ہیں

اور اندھیروں میں جا نکلتے ہیں

ایک کو دوسرے کا ہوش نہیں
یوں تو ہم ساتھ ساتھ چلتے ہیں

وہ کڑا موڑ ہے ہمیں درپیش
راستے ہر طرف نکلتے ہیں

کتنے عیاش لوگ ہیں ہم بھی
دن میں سو منزلیں بدلتے ہیں

وہ ہوئیں بارشیں، کہ کھیتوں میں
کرب اگتے ہیں ، درد پلتے ہیں

پتھروں کا غرور ختم ہوا
اب اِنساں شرر اگلتے ہیں

ٹھوکریں کھا رہے ہیں صدیوں سے
گو دلوں میں چراغ جلتے ہیں ۔۔۔ 

(احمد ندیم قاسمی)

No comments:

Post a Comment