Friday 10 May 2013

ریت سے بت نہ بنا اے میرے اچھے فنکار


ریت سے بت نہ بنا اے میرے اچھے فنکار 

اک لمحہ کو ٹھہر میں تجھے پتھر لادوں 
میں تیرے سامنے انبار لگادوں لیکن 
کون سے رنگ کا پتھر تیرے کام آئے گا 
سرخ پتھر جسے دل کہتی ہے بے دل دنیا 
یا وہ پتھرائی ہوئی آنکھ کا نیل پتھر 
جس میں صدیوں کے تحیر کے پڑے ہوں ڈورے 

کیا تجھے روح کے پتھر کی ضرورت ہوگی 
جس پر حق بات بھی پتھر کی طرح گرتی ہے 
اک وہ پتھر ہے جو کہلاتا ہے تہذیبِ سفید 
اس کے مرمر میں سیاہ خوں جھلک جاتا ہے 
اک انصاف کا پتھر بھی تو ہوتا ہے مگر 
ہاتھ میں تیشہ زر ہو تو وہ ہاتھ آتا ہے 

جتنے معیار ہیں اس دور کے سب پتھر ہیں 
شعر بھی رقص بھی تصویر و غنا بھی پتھر 
میرے الہام تیرا ذہن ِ رسا بھی پتھر 
اس زمانے میں ہر فن کا نشان پتھر ہے 
ہاتھ پتھر ہیں تیرے میری زبان پتھر ہے 

ریت سے بت نہ بنا اے میرے اچھے فنکار

No comments:

Post a Comment