Tuesday 26 February 2013

رُوح کی مَوت




چمک سکے جو مری زیست کے اندھیرے میں 
وہ اک چراغ کسی سمت سے اُبھر نہ سکا 
یہاں تمھاری نظر سے بھی دیپ جل نہ سکے 
یہاں تمھارا تبسم بھی کام کر نہ سکا 

لہو کے ناچتے دھارے کے سامنے اب تک 
دل و دماغ کی بےچارگی نہیں جاتی 
جنوں کی راہ میں سب کچھ گنوا دیا لیکن 
مرے شعور کی آوارگی نہیں جاتی 

نہ جانے کس لئے اس انتہائے حدت پر 
مرا دماغ سلگتا ہے جل نہیں جاتا 
نہ جانے کیوں ہر اک اُمید لوٹ جانے پر 
مرے خیال کا لاوا پگھل نہیں جاتا 

نہ جانے کون سے ہونٹوں کا آسرا پا کر 
تمھارے ہونٹ مری تِشنگی کو بُھول گئے 
وہی اصول جو مخکم تھے نرم سائے میں 
ذرا سی دھوپ میں نکلے تو جُھول جُھول گئے 

مصطفٰی زیدی 

No comments:

Post a Comment