عمر گھٹتی رہی خبر نہ ہوئیوقت کی بات وقت پر نہ ہوئیہجر کی شب بھی کٹ ہی جائے گیاتفاقاً اگر سحر نہ ہوئیجب سے آوارگی کو ترک کیازندگی لطف سے بسر نہ ہوئیاس خطا میں خلوص کیا ہوگاجو خطا ہو کے بھی نڈر نہ ہوئیمل گئی تھی دوائے مرگ مگرخضر پر وہ بھی کارگر نہ ہوئیکس قدر سادہ لوح تھی شیریںشعبدہ گر سے باخبر نہ ہوئیکوہکن ڈوب مر کہیں جا کرتجھ سے پہلی مہم بھی سر نہ ہوئیخواہشیں اتنی خوبصورت تھیںکوئی دل سے اِدھر اُدھر نہ ہوئیدل میں آنسو تو کم نہیں تھے عدمآنکھ پاسِ ادب سے تر نہ ہوئیسید عبدالحمید عدم
No comments:
Post a Comment