Thursday 28 February 2013

عمر گھٹتی رہی خبر نہ ہوئی


عمر گھٹتی رہی خبر نہ ہوئی
وقت کی بات وقت پر نہ ہوئی

ہجر کی شب بھی کٹ ہی جائے گی
اتفاقاً اگر سحر نہ ہوئی

جب سے آوارگی کو ترک کیا
زندگی لطف سے بسر نہ ہوئی

اس خطا میں خلوص کیا ہوگا
جو خطا ہو کے بھی نڈر نہ ہوئی

مل گئی تھی دوائے مرگ مگر
خضر پر وہ بھی کارگر نہ ہوئی

کس قدر سادہ لوح تھی شیریں
شعبدہ گر سے باخبر نہ ہوئی

کوہکن ڈوب مر کہیں جا کر
تجھ سے پہلی مہم بھی سر نہ ہوئی

خواہشیں اتنی خوبصورت تھیں
کوئی دل سے اِدھر اُدھر نہ ہوئی

دل میں آنسو تو کم نہیں تھے عدم
آنکھ پاسِ ادب سے تر نہ ہوئی

سید عبدالحمید عدم

No comments:

Post a Comment