Monday 25 February 2013

وہ تو پتھر پہ بھی گزرے نہ خدا ہونے تک




وہ تو پتھر پہ بھی گزرے نہ خدا ہونے تک 
جو سفر میں نے نہ ہونے سے کیا ، ہونے تک

زندگی! اس سے زیادہ تو نہیں عمر تری
بس کسی دوست کے ملنے سے جدا ہونے تک

ایک اِک سانس مری رہن تھی دِلدار کے پاس
نقدِ جاں بھی نہ رہا قرض ادا ہونے تک

مانگنا اپنے خدا سے بھی ہے دریوزہ گری
ہاتھ شل کیوں نہ ہوئے دستِ دُعا ہونے تک

اب کوئی فیصلہ ہو بھی تو مجھے کیا لینا
میں تو کب سے ہوں سرِ دار ، سزا ہونے تک

داورا ! تیری مشیت بھی تو شامل ہو گی
ایک اچھے بھلے انساں کے برا ہونے تک

دستِ قتل سے ہوں نادم کہ لہو کو میرے
عمر لگ جائے گی ہمرنگِ حنا ہونے تک

دشت سے قلزمِ خوں تک کی مسافت ہے فرازؔ
قیس سے غالبِ آشفتہ نوا ہونے تک
فرازؔ

No comments:

Post a Comment