وہ تو پتھر پہ بھی گزرے نہ خدا ہونے تکجو سفر میں نے نہ ہونے سے کیا ، ہونے تکزندگی! اس سے زیادہ تو نہیں عمر تریبس کسی دوست کے ملنے سے جدا ہونے تکایک اِک سانس مری رہن تھی دِلدار کے پاسنقدِ جاں بھی نہ رہا قرض ادا ہونے تکمانگنا اپنے خدا سے بھی ہے دریوزہ گریہاتھ شل کیوں نہ ہوئے دستِ دُعا ہونے تکاب کوئی فیصلہ ہو بھی تو مجھے کیا لینامیں تو کب سے ہوں سرِ دار ، سزا ہونے تکداورا ! تیری مشیت بھی تو شامل ہو گیایک اچھے بھلے انساں کے برا ہونے تکدستِ قتل سے ہوں نادم کہ لہو کو میرےعمر لگ جائے گی ہمرنگِ حنا ہونے تکدشت سے قلزمِ خوں تک کی مسافت ہے فرازؔقیس سے غالبِ آشفتہ نوا ہونے تک
فرازؔ
No comments:
Post a Comment