موسم اور محبتگو شام نہیں تھی سردیوں کیپھر بھی کمرہ خنک خنک تھاکافی کی پیالیاں تہی تھیںخالی خالی وجود تک تھاماضی کے گلے نہ عہدِ فرداالفاظ گری نہ حرف گویائیموسم نہ ادب نہ دل نہ دنیاموضوع سخن نہیں تھا کوئیاعصاب پہ برف گر رہی تھیدونوں تھے خموش و دل گرفتہلگتا تھا مجسموں کی صورتہم جیسے ہوں روبرو نشتہدونوں کے بدن میں کپکپی تھیسردی نے یہ حال کر دیا تھاچارہ ہی نہ تھا سو میں نے اس کواور اس نے مجھے پہن لیا
فراز
No comments:
Post a Comment