Thursday 14 February 2013



فن میں یہ معجزہ بھی پیدا کر
پتھروں سے بشر تراشا کر

کب سے اپنی تلاش میں گم ہوں
اے خدا مجھ کو مجھ پر افشا کر

جس پہ اب انگلیاں اٹھاتا ہوں
اس کو مانگا تھا ہاتھ پھیلا کر

اے بچھڑ کر نہ لوٹنے والے!
دکھ کی راتوں میں یاد آیا کر

جل چکا شہر ، مر چکے باسی!
اب بجھی راکھ ہی کریدا کر

عمر بھر مجھ پہ برف برسی ہے
دشت کی دھوپ مجھ پہ سایہ کر

ایک تنہا شجر نے مجھ سے کہا!
میرے سائے میں روز بیٹھا کر

تو کہ معجز نما ہے نام ترا
میں کہ ذرہ ہوں مجھ کو صحرا کر

اے مرے کچھ نہ سوچنے والے
اپنے بارے میں کچھ تو سوچا کر

میں عزادار ہوں اندھیروں کا
تو سحر ہے تو مجھ سے پردہ کر

اے سمندر کے ابرِ آوارہ !
دشت میں ایک پل تو ٹھہرا کر

کون بانٹے گا دکھ ترے محسن؟
دوستوں سے بھی چھپ کے رویا کر

محسن نقوی

No comments:

Post a Comment