خود آپ اپنی نظر میں حقیر میں بھی نہ تھااس اعتبار سے اس کا اسیر میں بھی نہ تھابنا بنا کے بہت اُس نے جی سے باتیں کیںمیں جانتا تھا مگر حرف گیر میں بھی نہ تھانبھا رہا ہے یہی وصفِ دوستی شایدوہ بے مثال نہ تھا بے نظیر میں بھی نہ تھاسفر طویل سہی گفتگو مزے کی رہی!وہ خوش مزاج اگر تھا تو میر میں بھی نہ تھامیں برگِ آخرِ شہرِ خزاں تھا خاک ہواکھلا کہ موسمِ گُل کا سفیر میں بھی نہ تھامیں کہہ رہا تھا رفیقوں سے جی کڑا رکھوچلا جو درد کا اِک اور تیر میں بھی نہ تھاستم کے عہد میں چپ چاپ جی رہا ہوں فرازؔسو دوسروں کی طرح باضمیر میں بھی نہ تھا
فرازؔ
No comments:
Post a Comment