Monday 25 February 2013

خود آپ اپنی نظر میں حقیر میں بھی نہ تھا



خود آپ اپنی نظر میں حقیر میں بھی نہ تھا
اس اعتبار سے اس کا اسیر میں بھی نہ تھا

بنا بنا کے بہت اُس نے جی سے باتیں کیں
میں جانتا تھا مگر حرف گیر میں بھی نہ تھا

نبھا رہا ہے یہی وصفِ دوستی شاید
وہ بے مثال نہ تھا بے نظیر میں بھی نہ تھا

سفر طویل سہی گفتگو مزے کی رہی!
وہ خوش مزاج اگر تھا تو میر میں بھی نہ تھا

میں برگِ آخرِ شہرِ خزاں تھا خاک ہوا
کھلا کہ موسمِ گُل کا سفیر میں بھی نہ تھا

میں کہہ رہا تھا رفیقوں سے جی کڑا رکھو
چلا جو درد کا اِک اور تیر میں بھی نہ تھا

ستم کے عہد میں چپ چاپ جی رہا ہوں فرازؔ
سو دوسروں کی طرح باضمیر میں بھی نہ تھا
فرازؔ

No comments:

Post a Comment