Monday 25 February 2013

تم نے بدلے ہم سے گن گن کے لیے



تم نے بدلے ہم سے گن گن کے لیے
ہم نے کیا چاہاتھا اس دن کے لیے

کچھ نرالا ہے جوانی کا بناؤ
شوخیاں زیور ہیں اس سن کے لیے

وصل میں تنگ آ کے وہ کہنے لگے
کیا یہ جوبن تھا اسی دن کے لیے

چاہنے والوں سے گر مطلب نہیں
آپ پھر پیدا ہوئے کن کے لیے

فیصلہ ہو آج میرا آپ کا
یہ اٹھا رکھا ہے کس دن کے لیے

دے مئے بے درد اے پیر مغاں
چاہیے اک پاک باطن کے لیے

دل کے لینے کو ضمانت چاہیے
اور اطمینان ضامن کے لیے

مے کشو مژدہ، اب آئی فصلِ گل
بلبلوں نے چونچ میں تنکے لیے

ہم نشینوں سے مرے کہتے ہیں وہ
چھوڑ دیں غیروں کو کیا ان کے لیے

ہیں رخِ نازک پہ گنتی کے نشاں
کس نے تیرے بوسے گن گن کے لیے

وہ نہیں سنتے ہماری کیا کریں
مانگتے ہیں ہم دعا جن کے لیے

آج کل میں داغؔ ہو گے کامیاب
کیوں مرے جاتے ہو دو دن کے لیے

                        نواب مرزا خان داغؔ دہلوی کے مجموعۂ کلام "مہتابِ داغ" سے انتخاب

No comments:

Post a Comment