دل بھی بُجھا ہو شام کی پر چھائیاں بھی ہوںمر جائیے جو ایسے میں تنہائیاں بھی ہوںآنکھوں کی سرخ لہر ہے موج ِ سپردگییہ کیا ضرور ہے کہ اب انگڑائیاں بھی ہوںہر حسن سادہ لوح نہ دل میں اُتر سکاکچھ تو مزاجِ یار میں گہرائیاں بھی ہوںدنیا کے تذکرے تو طبیعت ہی لے بجھےبات اس کی ہو تو پھر سخن آرئیاں بھی ہوںپہلے پہل کا عشق ابھی یاد ہے فرازدل خود یہ چاہتا تھا کہ رسوائیاں بھی ہوں
No comments:
Post a Comment