Tuesday 26 February 2013

مِری پتھر آنکھیں


اب کے مٹی کی عبارت میں لکھی جائے گی
سبز پتّوں کی کہانی رُخِ شاداب کی بات
کل کے دریاوں کی مٹتی ہوئ مبہم تحریر
اب فقط ریت کے دامن میں نظر آئے گی
بُوند بَھر نَم کو ترس جائے گی بے سود دعا
نَم اگر ہو گی کوئ چیز تو میری آنکھیں
میری پلکوں کے دریچے مرِی بنجر آنکھیں
میرا اُجڑا ہو چہرہ ، مری پتھر آنکھیں
قحط افسانہ نہیں اور یہ بے ابر فلک
آج اُس دیس کل اس دیس کا وارث ہوگا
ہم سے ترکے میں ملیں گے اُسے بیمار درخت
تیز کرنوں کی تمازت سے چٹختے ہوئے ہونٹ
دُھوپ کا حُرفِ جنوں ، لُو کا وصّیت نامہ
اور مِرے شہرِ طلسمات کی بے در آنکھیں
مِری بے در مِری بنجر ، مِری پتھرآنکھیں
مصطفی زیدی

No comments:

Post a Comment