ساقی شراب لا کہ طبیعت اداس ہےمطرب رباب اٹھا کہ طبیعت اداس ہےچبھتی ہے قلب و جاں میں ستاروں کی روشنیاے چاند ڈوب جا کہ طبیعت اداس ہےشاید ترے لبوں کی چٹک سے ہو جی بحالاے دوست مسکرا کہ طبیعت اداس ہےہے حسن کا فسوں بھی علاج فسردگیرُخ سے نقاب اٹھا کہ طبیعت اداس ہےمیں نے کبھی یہ ضد تو نہیں کی پر آج شباے مہ جبیں نہ جا کہ طبیعت اداس ہےتوبہ تو کر چکا ہوں مگر پھر بھی اے عدمتھوڑا سا زہر لا کہ طبیعت اداس ہے
No comments:
Post a Comment