Tuesday 26 February 2013

تم حقیقت نہیں ہو حسرت ہو


تم حقیقت نہیں ہو حسرت ہو
جو ملے خواب میں وہ دولت ہو

میں ‌تمھارے ہی دم سے زندہ ہوں
مر ہی جاؤں جو تم سے فرصت ہو

تم ہو خوشبو کے خواب کی خوشبو
اور اتنی ہی بے مرّوت ہو

تم ہو پہلو میں ‌پر قرار نہیں
یعنی ایسا ہے جیسے فرقت ہو

تم ہو انگڑائی رنگ و نکہت کی
کیسے انگڑائی سے شکایت ہو

کس طرح چھوڑ دوں‌ تمھیں ‌جاناں
تم مری زندگی کی عادت ہو

کس لیے دیکھتی ہو آئینہ
تم تو خود سے بھی خوبصورت ہو

داستاں‌ ختم ہونے والی ہے
تم مری آخری محبت ہو

No comments:

Post a Comment