Monday 25 February 2013

جسم شعلہ ہے جبھی جامۂ سادہ پہنا



جسم شعلہ ہے جبھی جامۂ سادہ پہنا
میرے سُورج نے بھی بادل کا لبادہ پہنا

سلوٹیں ہیں مرے چہرے پہ تو حیرت کیوں ہے
زندگی نے مجھے کچھ تم سے زیادہ پہنا

خواہشیں یوں ہی برہنہ ہوں تو جل بجھتی ہیں
اپنی چاہت کو کبھی کوئی ارادہ پہنا

یار خوش ہیں کہ انہیں جامۂ احرام ملا
لوگ ہنستے ہیں کہ قامت سے زیادہ پہنا

یارِ پیماں شکن آئے اگر اب کے تو اُسے
کوئی زنجیرِ وفا اے شبِ وعدہ پہنا

غیرتِ عشق تو مانع تھی مگر میں نے فرازؔ
دوست کا طوق سرِ محفلِ اعدا پہنا

(جاناں جاناں سے انتخاب)

No comments:

Post a Comment