Monday 25 February 2013

یہ دل کا چور کہ اس کی ضرورتیں تھیں بہت



یہ دل کا چور کہ اس کی ضرورتیں تھیں بہت
وگرنہ ترکِ تعلق کی صورتیں تھیں بہت

ملے تو ٹوٹ کے روئے نہ کھل کے باتیں کیں
کہ جیسے اب کے دلوں میں کدورتیں تھیں بہت

بھلا دیئے ہیں تیرے غم نے دکھ زمانے کے
خدا نہیں تھا تو پتھر کی مورتیں تھیں بہت

دریدہ پیرہنوں کا خیال کیا آتا؟
امیرِ شہر کی اپنی ضرورتیں تھیں بہت

فراز دل کو نگاہوں سے اختلاف رہاوگرنہ
شہر میں ہم شکل صورتیں تھیں بہت

No comments:

Post a Comment