Friday, 1 February 2013


کیوں کہہ کے دل کا حال کریں ہائے ہائے دل
اچھی کہی کہ ہم سے کہو ماجرائے دل

افسوس میں نے روزِ ازل یہ نہ کہہ دیا
دے مجھ کو سب جہان کی نعمت سوائے دل

گھبرا کے بزم ناز سے آخر وہ اٹھ گئے
سن سن کے ہائے ہائے جگر ہائے ہائے دل

بہرِ عیادت آج وہ آ کر یہ کہہ گئے
ہو زندگی عزیز جسے کیوں لگائے دل

رہتا ہے دم خفا میرے سینے میں ہر گھڑی
روٹھے ہوئے کو ہائے کہاں تک منائے دل

شکوہ کیا کہ شکر کیا تیرا بار بار
تھم تھم کے نرم نرم کچھ آئی صدائے دل

کہتے نہ تھے سن کے وہ برا مان جائیں گے
اے داغ ان سے اور کہو ماجرائے دل

(داغ دہلوی)

No comments:

Post a Comment