روح کو راضی کیا میں نے تو راضی دل نہ تھا
ورنہ اٹھنا محفلِ ہستی سے کچھ مشکل نہ تھا
چار آنکھیں ہوتے ہی قابو میں گویا دل نہ تھا
کہہ گذرنا ورنہ حالِ ہجر کچھ مشکل نہ تھا
سننے والے میرا قصہ سن کے یوں دیتے ہیں داد
یا تو یہ زندہ نہ تھا یا پاس اس کے دل نہ تھا
یہ رموزِ جذب ہیں مجنوں سے پوچھا چاہیے
باطنِ محمل کا شاہد پردۂ محمل نہ تھا
قتل گہ کی سیر سے قاتل چلا ہے یوں اداس
جیسے مرضی کے موافق کوئی بھی بسمل نہ تھا
طور پر موسیٰ کو بلوایا پئے دیدارِ حُسن
کون کہتا ہے کہ انساں جوہرِ قابل نہ تھا
بیٹھے جتنی دیر بالیں پر ہنسی آتی رہی
دل لگی تھی آپ کے نزدیک دردِ دل نہ تھا
دردِ باطن سے دہانِ زخم جو کچھ کہہ اٹھے
شکوۂ تقدیر تھا وہ شکوۂ قاتل نہ تھا
ایک ہی نالے کی قوت سے خدائی ہل گئی
اضطرابِ ہجر میں روحِ اثر تھا دل نہ تھا
زندگی بھر کی ریاضت تھا دلِ محشر ضرور
پھر بھی او ظالم نگاہِ ناز کے قابل نہ تھا
(مرزا کاظم حسین محشر لکھنوی)
No comments:
Post a Comment