عمر بھر ہم رہے شرابی سے
دلِ پُر خوں کی اک گلابی سے
جی ڈہا جائے ہے سحر سے آہ
رات گزرے گی کس خرابی سے
کھلنا کم کم کلی نے سیکھا ہے
اُس کی آنکھوں کی نیم خوابی سے
برقع اٹھتے ہی چاند سا نکلا
داغ ہوں اس کی بے حجابی سے
کام تھے عشق میں بہت پر میر
ہم ہی فارغ ہوئے شتابی سے
(میر تقی میر)
No comments:
Post a Comment