،،،،،،،فیض احمد فیض،،،،،،،،،،،،،،،،،،پھر کوئی آیا دلِ زار! نہیں کوئی نہیںراہرو ہوگا، کہیں اور چلا جائے گاڈھل چکی رات، بکھرنے لگا تاروں کا غبارلڑکھڑانے لگے ایوانوں میں خوابیدہ چراغسو گئی راستہ تک تک کے ہر اک راہگزاراجنبی خاک نے دھندلا دیے قدموں کے سراغگل کرو شمعیں، بڑھا دو مے و مینا و ایاغ
اپنے بے خواب کواڑوں کو مقفل کر لو
اب یہاں کوئی نہیں، کوئی نہیں آئے گا
No comments:
Post a Comment