Friday, 1 February 2013


،،،،،،،،
فیض احمد فیض
،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،
چند روز اور مری جان ! فقط چند ہی روز
ظلم کی چھاؤں میں دم لینے پہ مجبور ہیں ہم
اور کچھ دیر ستم سہ لیں، تڑپ لیں، رو لیں
اپنے اجداد کی رات ہے معذور ہیں ہم
جسم پر قید ہے، جذبات پہ زنجیریں ہیں
فکرِ محبوب ہے، گفتار پہ تعزیریں ہیں
اپنی ہمت ہے کہ ہم پھر بھی جئیے جاتے ہیں
زندگی کیا کسی مفلس کی قبا ہے جس میں
ہر گھڑی درد کے پیوند لگے جاتے ہیں
لیکن اب ظلم کی میعاد کے دن تھوڑے ہیں
اِک ذرا صبر کی فریاد کے دن تھوڑے ہیں
عرصہِ دہر کی جھلسی ہوئی ویرانی میں
ہم کو رہنا ہے پر یونہی تو نہیں رہنا
اجنبی ہاتھوں کا بےنام گرانبار ستم
آج سہنا ہے، ہیشہ تو نہیں سہنا ہے
یہ ترے حسن سے لپٹی ہوئی آلام کی گرد
اپنی دو روزہ جوانی کی شکستوں کا شمار
چاندنی راتوں کا بیکار دہکتا ہوا درد
دل کی بےسود تڑپ، جسم کی مایوس پکار
چند روز اور مری جان ! فقط چند ہی روز

No comments:

Post a Comment