چاہا تو بہت کچھ تھا یہاں پر نہیں بدلاتصویر بدلنے سے بھی منظر نہیں بدلاخوف آتا ہے اُمید ہی رستہ نہ بدل لےجب اتنی تباہی پہ بھی یہ گھر نہیں بدلاممکن ہے کہ منزل کا تعین ہی غلط ہواب تک تو مری راہ کا پتھر نہیں بدلاتاریخ تمھاری بھی گواہی کبھی دیتینیزہ ہی بدل جاتا اگر سر نہیں بدلاپیروں میں زمیں، آسماں سر پر ہے ابھی تکچادر نہیں بدلی، مرا بستر نہیں بدلاکیسے ترے کہنے سے بدل جاؤں کہ اب تکدریاؤں کی خواہش پہ سمندر نہیں بدلاسلیم کوثر
No comments:
Post a Comment