Monday 15 April 2013

تو آ اِس دم کہ ہے وقتِ سحر


تو آ اِس دم کہ ہے وقتِ سحر اے گلبدن ٹھنڈا
زمیں ٹھنڈی، ہوا ٹھنڈی، مکاں ٹھنڈا، چمن ٹھنڈا

برنگِ کاسۂ یخ بستہ آہِ سرد سے میری
ہوا شب کو مہِ کامل سرِ چرخِ کہن ٹھنڈا

جو وہ خورشید رو بھی محفل آرا رات کو ہو گا
تو پھر ہو جائے گا بازارِ شمعِ انجمن ٹھنڈا

خدا جانے سحر کس کی گلی سے یہ ہوا آئی
حباب آسا جو میرا ہو گیا ہے پیرہن ٹھنڈا

سحر گر بام پر دیکھے اکڑنا میری مہ رو کا
وہیں ہو چرخِ کج رفتار کا پھر بانکپن ٹھنڈا

حرارت اس قدر سوزِ محبت کی ہے سینے میں
نہ ہو گا بعدِ مردن بھی بدن زیرِ کفن ٹھنڈا

تو مت منہ موڑ اب مجھ کو لگا لے اپنے سینے سے
کہ میرا سینۂ سوزاں ہو اےغنچہ دہن ٹھنڈا

مریضِ عشق کی تیرے بیاں کیا کیجیے حالت
کہ بس پتھرا گئیں آنکھیں، ہوا یکسر بدن ٹھنڈا

ہوا کیوں ایک شب کے واسطے پروانہ سے سرکش
سحر ہو جائے گا اے شعلۂ شمع لگن ٹھنڈا

مرا دل تشنہ ہے زلفِ عرق آلودہ سے کہہ دو
پلا دے اس کو پانی تو سرِ چاہِ ذقن ٹھنڈا

برنگِ شمع ہنس ہنس کر وہ آتش خو جلاتا ہے
شتاب اے دیدۂ پرآب کر میرا بدن ٹھنڈا

سدا دل شعلہ افروز آتشِ ہجراں سے رہتا ہے
نہیں ہوتا ہے یہ گلشن کبھی اے جانِ من ٹھنڈا

چلے ہیں رات کو چوری سے ہم اس ماہ کے گھر میں
چراغِ ماہ کو کر دے تو اے چرخِ کہن ٹھنڈا

ظفر لکھوں غزل وہ اور تبدیلِ قوافی میں
کہ تا ہو جائے اب بازارِ اربابِ سخن ٹھنڈا

(سراج الدین بہادر شاہ ظفر)

No comments:

Post a Comment