Sunday 28 April 2013

خدا جانے ًکہاں سے جلوہء جاناں کہاں تک ہے


خدا جانے ًکہاں سے جلوہء جاناں کہاں تک ہے
وہیں تک دیکھ سکتا ہے، نظر جس کی جہاں تک ہے

ہم اتنی بھی نہ سمجھے، عقل کھوئی دل گواں بیٹھے
کہ حسن و عشق کی دنیا کہاں سے ہے کہاں تک ہے

زمیں سے آسماں تک ایک سناٹے کا عالم ہے
نہیں معلوم مرے دل کی ویرانی کہاں تک ہے

زمیں سے آسماں تک، آسماں سے لا مکاں تک ہے
خدا جانے ہمارے عشق کی دنیا کہاں تک ہے

نیاز و ناز کی روداد، حسن و عشق کا قصہ
یہ جو کچھ بھی ہے سب اُن کی ہماری داستاں تک ہے

خیالِ یار نے تو آتے ہی گُم کردیا مجھ کو
یہی ہے ابتدا تو انتہا اس کی کہاں تک ہے

سُنا ہے صوفیوں سے ہم نے اکثر خانقاہوں میں
کہ یہ رنگیں بیانی "بیدم" رنگیں بیاں تک ہے

(بیدم شاہ وارثیؒ)

No comments:

Post a Comment