Monday 8 April 2013

تو بھی نہیں میں بھی نہیں



لغزشوں سے ماورا تو بھی نہیں میں بھی نہیں
دونوں انساں ہیں خدا تو بھی نہیں میں بھی نہیں

تو جفا کی میں وفا کی راہ پر ہیں گامزن
پیچھے مڑ کر دیکھتا تو بھی نہیں میں بھی نہیں

تو مجھے میں تجھے الزام دھرتا ہوں
اپنے من میں جھانکتا تو بھی نہیں میں بھی نہیں

مصلحت نے کر دیے دونوں میں پیدا اختلاف
ورنہ فطرت کا برا تو بھی نہیں میں بھی نہیں

بد گمانی شہر میں کس نے پھیلا دی جبکہ
ایک دوسرے سے خفا تو بھی نہیں میں بھی نہیں

جرم کی نوعیتو ں میں کچھ تفاوت ہو تو ہو
در حقیقت پارسا تو بھی نہیں میں بھی نہیں

جان محسن تو بھی تھا ضدی انا مجھ میں بھی تھی
دونوں خودسر تھے جھکا تو بھی نہیں میں بھی نہیں

No comments:

Post a Comment