Sunday 28 April 2013

رقص وحشت ہنوز طاری ہے


رقص وحشت ہنوز طاری ہے
ہر گلی خوں کی ملمع کاری ہے

سنگ کوئی گراؤ شیشے پر
زندگی پر جمود طاری ہے

بانٹ لیں آؤ درد کے لمحے
ساتھیو وقت غمگساری ہے

یوں تو اجڑی ہے بارہا دھرتی
مگر اب کے یہ ضرب کاری ہے

بڑے دن سے اداس ہے طبیعت
شاید اندر بھی جنگ جاری ہے

قتلِ انساں ہے کہ نہیں تھمتا
رقصِ ابلیس ہے کہ جاری ہے

چین پل بھر سحر نہیں آتا
کیا کہوں کیسی بے قراری ہے

شائستہ سحر

No comments:

Post a Comment