Sunday 28 April 2013

صحن کعبہ نہ سہی کوے صنم خانہ سہی



صحن کعبہ نہ سہی کوے صنم خانہ سہی
خاک اڑانی ہے تو پھر کوئی بھی ویرانہ سہی
زندگی تلخ حقیقت کے سوا کچھ بھی نہیں
اس میں کچھ چاشنی مشرب رندانہ سہی
آپ سے جس کو ہو نسبت وہ جنوں کیا کم ہے
دونوں عالم نہ سہی ایک دل دیوانہ سہی
اپنی شوریدہ مزاجی کو کہاں لے جاؤں
تیرا ایما نہ سہی تیرا اشارہ نہ سہی
زندگی فرش قدم بن کے بچھی جاتی ہے
اے جنوں اور بھی اک لغزش مستانہ سہی
یہ ہواہیں یہ گھٹاہیں یہ فضاہیں یہ بہار
محتسب آج تو شغل مے و پیمانہ سہی
حسن خود پردہ کشاے رخ مقصود تو ہے
عشق کو حوصلہ و عرض و تمنا نہ سہی
کون ایسا ہے یہاں عشق جس کا ہے بے لاگ
آپ کی جان سے دور آپ کا دیوانہ سہی
زندگی آج بھی دلکش ہے انھیں کے دم سے
زندگی خواب سہی عشق اک فسانہ سہی
تشنہ لب ہاتھ پہ کیوں ہاتھ دھرے بیٹھے ہیں
کچھ نہیں ہے تو شکست خم و خم خانہ سہی
میں نہ زاہد سے ہوں شرمندہ نہ صوفی سے جگر
مسلک عشق مرا مسلک رندانہ سہی
(جگر مراد آبادی)

No comments:

Post a Comment