زمانے بھر کی نگاہوں میں جو خدا سا لگےوہ اجنبی ہے مگر مجھ کو آشنا سا لگےنجانے کب مِری دُنیا میں مُسکرائے گاوہ ایک شخص کہ خوابوں میں بھی خفا سا لگےعجیب چیز ہے یارو یہ منزلوں کی ہوسکہ راہزن بھی مسافر کو رہنما سا لگےدِل تباہ! تِرا مشورہ ہے کیا کہ مجھےوہ پھول رنگ ستارہ بھی بے وفا سا لگےہُوئی ہے جس سے منور ہر ایک آنکھ کی جھیلوہ چاند آج بھی محسن کو کم نما سا لگے
No comments:
Post a Comment