Sunday 28 April 2013

زمانے بھر کی نگاہوں میں جو خدا سا لگے


زمانے بھر کی نگاہوں میں جو خدا سا لگے
وہ اجنبی ہے مگر مجھ کو آشنا سا لگے

نجانے کب مِری دُنیا میں مُسکرائے گا
وہ ایک شخص کہ خوابوں میں بھی خفا سا لگے

عجیب چیز ہے یارو یہ منزلوں کی ہوس
کہ راہزن بھی مسافر کو رہنما سا لگے

دِل تباہ! تِرا مشورہ ہے کیا کہ مجھے
وہ پھول رنگ ستارہ بھی بے وفا سا لگے

ہُوئی ہے جس سے منور ہر ایک آنکھ کی جھیل
وہ چاند آج بھی محسن کو کم نما سا لگے

No comments:

Post a Comment