Wednesday 10 April 2013

ہچکیوں کا شمار ہے یعنی



ہچکیوں کا شمار ہے یعنی
آپ کا انتظار ہے یعنی

فتنہ برپا ہے آج عالَم میں
دل بہت بے قرار ہے یعنی

آنکھ اُٹھتی نہیں ہے محشر میں
فتنہ گر شرمسار ہے یعنی

کس قدر سوگوار ہے دنیا
زیست بھی ایک بار ہے یعنی

مستیٔ چشمِ یار ارے توبہ
شام ہی سے خمار ہے یعنی

وہ بُلانے بھی نہیں آتے
حُسن با اختیار ہے یعنی

دل دھڑکتا ہے بَلّیوں میرا
ان کے دل کی پکار ہے یعنی

سارے جلوے ہیں حسنِ کامل کے
عشق بے اختیار ہے یعنی

کس نے دل کا قرار لوٹ لیا
کیوں سکوں ناگوار ہے یعنی

پوچھنا کیا خلیؔلِ مُضطر کا
ایک تازہ شکار ہے یعنی

از خلیل میاں برکاتی قادری

No comments:

Post a Comment